Wednesday, 20 May 2015

ﻭﻗﺖ

ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﻋﺠﯿﺐ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﮐﭽﮫ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﺍﻣﯿﺪ ﮐﺎ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻧﻘﺎﺭﮦ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺍﻟﻤﯿﮧ ﯾﺎ ﺧﻮﺷﯽ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺭﻭﺍﮞ ﺩﻭﺍﮞ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ، ﺭﮐﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﺟﺲ ﺩﻥ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺩﻥ ﺑﮭﯽ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﮔﮭﮍﯼ ﮐﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻟﺮﺯﺍﮞ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﮔﮭﮍﯼ ﺑﮭﯽ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ

اعمال آخرت


کسی گاؤں میں ایک کتا کنویں میں گر کے مر گیا۔ چونکہ یہ کنواں پانی کے حصول کے لیے پورے گاؤں کا واحد ذریعہ تھا اِس لیے سبھی لوگ بہت فکر مند ہو گئے کہ کیسے کنویں کے پانی کو پاک کیا جائے۔
آخرکار اتفاقِ رائے سے گاؤں کے دو تین سمجھدار لوگ یہ مسئلہ ساتھ کے گاؤں کی جامعہ مسجد کے مولوی صاحب کے پاس لے گئے۔ مولوی صاحب نے اُن کی پوری بات سنے کے بعد شرعی نقطۂ نظر سے مسئلے کا حل بتایا اور کہا کہ "کنویں میں سے کتے کو نکال کر، پانی کی بالٹیوں کی مدد سے ایک خاص مقدار تک پانی کو باہر نکالو تو کنویں کا پانی پاک ہو جائے گا۔"
چونکہ گاؤں کے لوگ کم پڑھے لکھے تھے اور اُوپر سے پہلی بار ایسا مسئلہ انہیں درپیش ہوا تھا، چنانچہ انہوں نے مولوی صاحب کی کچھ باتیں تو یاد رکھیں اور کچھ بھول گئے۔
آنے والے جمعے کی نماز کے بعد وہ لوگ مولوی صاحب کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئے اور گاؤں والوں کی طرف سے شکریہ ادا کیا کہ اُن کی راہنمائی میں کنویں کا پانی پاک ہوگیا ہے۔
جب مولوی صاحب نے دریافت کیا کہ "کیا انہوں نے مرے ہوئے کتے کو پانی سے باہر نکال دیا تھا؟"
تو وہ دائیں بائیں ایک دوسرے کی آنکھوں میں یوں جھانکنے لگے جیسے انہوں نے یہ بات پہلی بار سنی ہو، تبھی ایک صاحب گویا ہوئے، "نہیں مولوی صاحب! کتے کو تو ہم باہر نہیں نکال سکتے، کیونکہ کنواں کافی گہرا ہے تو اِس لیے یہ ناممکن ہے۔۔!"
تب مولوی صاحب غصے میں گرج کر بولے، "ارے احمقو! جب تک کتے کو باہر نہیں نکالو گے قیامت تک کنویں میں سے پانی نکالتے رہو، اُسکا پانی پاک نہیں ہوگا۔۔۔!"
دوستو! ہمارے ہاں بھی بہت سے لوگ اِس بات کا رونا روتے رہتے ہیں کہ۔۔۔!
٭ اُنکے رزق سے برکت ختم ہو گئی ہے۔
٭۔ اُنکی دُعائیں قبول نہیں ہو رہیں۔
٭ گھریلو جھگڑے اور بیماریاں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں۔
٭ ذہنی پریشانی ایک مسقل روگ بن گیا ہے۔
٭ کاروبار میں مندی چل رہی ہے۔
٭ ہر امتحان میں ناکامی اُن کا مقدر بن گئی ہے۔ وغیرہ وغیرہ
تو جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ جھوٹ، فراڈ، دھوکہ، فریب، غیبت، چغلی اور بہتان جیسے سبھی گناہوں کو اپنی زندگی سے نکال دو تو وہ بھی اُن گاؤں والوں کی طرح اپنے حق میں وکالت کرتے ہوئے کہتے ہیں "جناب! کیسے نکال دیں، ایسا بالکل ناممکن ہے کیونکہ جب تک جھوٹ، فراڈ، دھوکہ اور فریب نہ کریں، نہ تو مال بکتا ہے اور، نہ ہی کاروبار میں منافع ہوتا ہے۔۔!"
تو میرے عزیز دوستو! ایسے لوگوں کے لیے پھر دُعا ہی کی جا سکتی ہے۔ جو یہ چاہتے ہیں کہ زندگی بھر تو وہ شیطان اور اُس کے چیلوں کے نقشِ قدم پر چلتے رہیں، لیکن پھر بھی اللہ رب العزت اُن پر اپنی رحمت کی بارش کرتا رہے۔ جب وہ مریں تو برزخ کے فرشتے انہیں قبر ہی میں جنت کی نوید سنا دیں۔ بروزِ محشر نبی پاک (ص) اُن کے حق میں شفاعت کریں، نامۂ اعمال اُن کے دائیں ہاتھ میں ہو اور آخرکار وہ جنت کی حوروں کے درمیان جنت کے مزے کریں۔۔!!
سبحان اللہ سوچ تو اچھی ہے، لیکن اعمال بھی اچھے کرنے ہونگے
اللہ ہی ایسے لوگوں کو ہدایت دے۔۔آمین

فیس بک پیج

یہ تقریباً ایک سال پہلے کی بات ہے....ایک دن فیس بک پہ لاگ ان ہوا تو میری فرینڈ لسٹ کے ایک صاحب نے کوئی فحش قسم کا پیج لائک کیا ہوا تها...جس کی وجہ سے وہ پیج میری ٹائم لائن پہ نظر آرہا تها....جس کو لائک کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں تهی....پہلے تو مجهے اس فرینڈ پہ سخت غصہ آیا...کیونکہ پروفائل پکچر اور دوستوں کی لسٹ دیکھ کر اس پر اچھائی کا ہی گمان گزرتا تھا.....
خیر اچانک میرے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا....میں نے ایک پیغام لکھ کر اس پیج کے ان باکس میں بهیج دیا.....مجهے یہ نہیں معلوم تھا کہ اس پیج کا ایڈمن میرا میسیج پڑے گا یا نہیں....اور اگر پڑھ بهی لے تو عمل کی کیا گارنٹی....مگر خدا گواہ ہے کہ میں نے اس پہ ترس کها تے ہوئے یہ پیغام بهیجا تها:
"دنیا اک کھیتی ہے.....جو شخص اس میں جو بوئے گا....روز محشر اسی کو کاٹے گا....اللہ تعالٰی نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد......اس کے سامنے دو راستے رکهیں ہیں....اور قرآن مجید میں ان دو راستوں کا ذکر ان الفاظ میں موجود ہے.... "وهدیناہ النجدین"..یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دو راستے دکھائے ہیں....اور اختیار دیا ہے جس راستے پہ آپ کی مرضی ہے چلو.....مگر یاد رکهو.....اس راستے پر چلو گے تو حور و غلمان کی چہل پہل سے آباد باغات میں پہنچ جاؤگے....اور اگر اس راستے پہ چلو گے تو آگ اور درندوں سے محیط گڑھے میں گر جاؤ گے.....میرے بهائی گناہ ایک ایسی چیز ہے جس سے حتی المقدور انسان کو بچنا چاہیے.....اور اگر پهر بهی کوئی انسان بہ تقاضۂ بشری کسی گناہ کا ارتکاب بهی کرتا ہے....تو کم ازکم کم ایسا گناہ تو نہیں کرنا چاہیےجس کی وجہ سے انسان گناہ بے لذت کا شکار ہو جائے....یا مرنے کے بعد بهی گناہوں کا تحفہ قبر میں ملتا رہے....
آپ نے ایک پیج بنایا ہے....اور مجهے یہ بهی یقین ہے آپ مسلمان ہوں گے....آپ اپنے پیج پہ فحش وڈیوز اپلوڈ کرتے ہیں جس کو ہزاروں لوگ دیکھ لیتے....جتنے بهی لوگ دیکھ لیتے آپ کے اعمال نامہ میں گناہوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے.....اور یہ ایک ایسا گناہ ہے جو کبهی ختم نہیں ہو سکتا.....آپ کو ابهی اور اسی وقت موت بهی آسکتی ہے....پهر آپ قبر میں چلاتے رہوگے مگر تب بہت دیر ہوچکی ہوگی....بهائی میرا پہلا مشورہ تو آپ کو یہ ہے کہ آپ اس گناہ سے خود بهی توبہ کرتے ہوئے....اس پیج کو فوراً ختم کردو.....اور اگر آپ سے یہ گناہ نہیں چھوٹتا تو بھلے خود دیکھتے رہو....مگر خواہ مخواہ دوسروں کا گناہ اپنے سر مت لو...."
میں میسیج بهیجنے کے کچھ دن بعد اس بات کو بهول چکا تها.....ایک دن اچانک ان باکس میں ایک نامانوس زنانہ نام کی آئی سے ایک میسیج آیا.....جس کا مفہوم کچھ اس طرح تها:
"بهائی میرے فلاں پیج کے ان باکس میں آپ کا میسیج آیا تها......وہ میسیج پڑهنے کے بعد پوری رات سوچتی رہی....رات بهر مجهے نیند نہیں آئی....تہجد کے وقت بلا اختیار میں بستر سے اٹهی.....اور سب سے پہلے پیج کو ڈیلیٹ کیا....اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لی......اس کے بعد میں نے نماز پابندی سے شروع کی ہے.....سیدها راستہ دکھانے کا بہت شکریہ....اللہ تعالٰی آپ کو اس کا بدلہ عطا فرمائے....میں آج اس آئی ڈی کو بهی ڈلیٹ کرکے.....فیس بک کو ہمیشہ کے لیے چهوڑ رہی ہوں..."
....رات کو جب میں نے چیک کیا تو....نہ وہ پیج فیس بک پہ موجود تها اور نہ ہی وہ آئی ڈی..

نصیب..

شاید حقیقی زندگی میں کچھ ایسا ہی ہوتا ہے
نصیب لوگوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے
حالانکہ ان کے کام عقل سے نہیں ہو رہے ہوتے، یہی ان کی تقدیر ہوتی ہے۔
بعض اوقات سفر سے تاخیر کسی اچھائی کا سبب بن جایا کرتی ہے۔
شادی میں تاخیر کسی برکت کا سبب بن جایا کرتی ہے۔
اولاد نہیں ہو رہی، اس میں بھی کچھ مصلحت ہوا کرتی ہے۔
نوکری سے نکال دیا جانا ایک با برکت کاروبار کی ابتدا بن جایا کرتا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو
اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو
اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے (سورۃ البقرۃ – 216)

جلدبازی...

ﺍﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺳﮯ ﮨﻮﺍﺋﯽ ﺍﮈﮮ ﭘﺮ ﺟﮩﺎﺯ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻭﻗﺖ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﭧ ﭘﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ .. ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺩﮐﺎﻥ ﺳﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺍﺭﯼ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﺴﮑﭧ ﮐﺎ ﮈﺑﮧ ﺧﺮﯾﺪﺍ .. ﻭﺍﭘﺲ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮐﺘﺎﺏ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ .. ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮐﺴﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ .. ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﯽ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﮯ ﺑﺴﮑﭧ ﮐﮯ ﮈﺑﮯ ﺳﮯ ﺟﺐ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮯ ﺑﺴﮑﭧ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﮍﮬﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺣﯿﺮﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮈﺑﮯ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺴﮑﭧ ﺍﭨﮭﺎ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ .. ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﺎ ﻏﺼﮯ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﺑﺮﺍ ﺣﺎﻝ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ .. ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺲ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﺍﺱ ﺑﮯ ﺫﻭﻗﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺍﺩﺑﯽ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺗﮭﭙﮍ ﺗﮏ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ..
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺩﻭ ﭼﻨﺪ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﻭﮦ ﮈﺑﮯ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺴﮑﭧ ﺍﭨﮭﺎﺗﯽ ﻭﮦ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﺴﮑﭧ ﺍﭨﮭﺎ ﻟﯿﺘﺎ .. ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺣﺎﻝ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮭﻨﺠﮭﻼﮨﭧ ﭘﺮ ﺑﻤﺸﮑﻞ ﻗﺎﺑﻮ ﺭﮐﮫ ﭘﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ .. ﺟﺐ ﮈﺑﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﺧﺮﯼ ﺑﺴﮑﭧ ﺁﻥ ﺑﭽﺎ ﺗﻮ ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﮐﯽ ﺷﺪﯾﺪ ﺣﺴﺮﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﺏ ﯾﮧ ﺑﺪ ﺗﻤﯿﺰ ﺍﻭﺭ ﺑﺪ ﺍﺧﻼﻕ ﺷﺨﺺ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ .. ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺁﺧﺮﯼ ﺑﺴﮑﭧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﮍﮬﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﯾﺎ ﯾﮧ ﺁﺧﺮﯼ ﺑﺴﮑﭧ ﺍﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺭﮐﮫ ﭼﮭﻮﮌﮮ ﮔﺎ ..؟ ﺗﺎﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﺮﻭﺝ ﭘﺮ ﺟﺎ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﺟﺐ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺁﺧﺮﯼ ﺑﺴﮑﭧ ﮐﻮ ﺩﻭ ﺣﺼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺁﺩﮬﺎ ﺧﻮﺩ ﺍﭨﮭﺎ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﺩﮬﺎ ﺍﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ .. ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﮨﺎﻧﺖ ﮐﯽ ﮔﻨﺠﺎﺋﺶ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ .. ﺁﺩﮬﮯ ﺑﺴﮑﭧ ﮐﻮ ﻭﮨﯿﮟ ﮈﺑﮯ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ، ﮐﺘﺎﺏ ﮐﻮ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ، ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﭘﭩﺨﺘﯽ ﺍﻣﯿﮕﺮﯾﺸﻦ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﮩﺎﺯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﻞ ﭘﮍﯼ .. ﺟﮩﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺳﺘﯽ ﺗﮭﯿﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻋﯿﻨﮏ ﻧﮑﺎﻟﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﮭﻮﻻ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﮨﯽ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺧﺮﯾﺪﺍ ﮨﻮﺍ ﺑﺴﮑﭧ ﮐﺎ ﮈﺑﮧ ﺗﻮ ﺟﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﻮﮞ ﺗﮭﯿﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ.. ﻧﺪﺍﻣﺖ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﻣﻨﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺮﺍ ﺣﺎﻝ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ .. ﺍﺳﮯ ﺍﺏ ﭘﺘﮧ ﭼﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮨﻮﺍﺋﯽ ﺍﮈﮮ ﭘﺮ ﺑﺴﮑﭧ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﮈﺑﮯ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﮐﮭﺎﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ .. ﺍﺏ ﺩﯾﺮ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﺍﯾﮏ ﻣﮩﺬﺏ ﺍﻭﺭ ﺭﺣﻤﺪﻝ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﺎ .. ﺟﺲ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﺷﮑﻮﮮ ﺍﻭﺭ ﮨﭽﮑﭽﺎﮨﭧ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮈﺑﮯ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﺴﮑﭧ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﺌﮯ ﺗﮭﮯ ..
ﻭﮦ ﺟﺲ ﻗﺪﺭ ﺍﺱ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﭘﺮ ﺳﻮﭼﺘﯽ ﺍﺳﯽ ﻗﺪﺭ ﺷﺮﻣﺪﻧﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﺠﺎﻟﺖ ﺑﮍﮬﺘﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ.. ﺍﺱ ﺷﺮﻣﻨﺪﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﺠﺎﻟﺖ ﮐﺎ ﺍﺏ ﻣﺪﺍﻭﺍ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ .. ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﻭﻗﺖ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉﮬﮯ، ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻌﺬﺭﺕ ﮐﺮﮮ، ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮯ ﺫﻭﻗﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺍﺩﺑﯽ ﮐﯽ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﻣﺎﻧﮕﮯ، ﯾﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻋﻠٰﯽ ﻗﺪﺭﯼ ﮐﺎ ﺷﮑﺮﯾﮧ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﮮ .. ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺋﮯ ﻗﺎﺋﻢ  ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻠﺪﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ




ﺳﮑﻮﻥِ ﻗﻠﺐ

ﺳﮑﻮﻥ ﻗﻠﺐ ﮐﺴﯽ ﻓﺎﺭﻣﻮﻟﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ،ﻓﺎﺭﻣﻮﻟﮯ ﺗﻮ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﭩﮭﺎﺋﯽ ﺑﻨﺎ ﻟﯽ ﮨﮯ،ﻟﻮ ﮐﮭﺎ ﻟﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺳﮑﻮﻥ ﻗﻠﺐ ﮨﮯ۔ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺳﮑﻮﻥ ﻗﻠﺐ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ،ﺳﮑﻮﻥ ﻗﻠﺐ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔ﭘﯿﺴﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭ،ﺳﮑﻮﻥ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔ﺩﻋﺎ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺿﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ،ﻧﺎﻣﻨﻈﻮﺭ ﺩﻋﺎ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﺘﻨﺎ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﺩﻋﺎ ﮐﺎ۔ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﻓﺮﻕ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ۔ﺳﮑﻮﻥ ﻗﻠﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ۔ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﺟﻮ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ،ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭼﻠﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﺟﺎﺅ،ﺳﮑﻮﻥ ﻗﻠﺐ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔
ﻭﺍﺻﻒ ﻋﻠﯽ ﻭﺍﺻﻒ ﮐﯽ " ﮔﻔﺘﮕﻮ " ﺳﮯ ﺍﻗﺘﺒﺎﺱ

اللہ کا رنگ


سمندر سب کے لیے ایک جیسا ہی ہوتا ہے لیکن کچھ لوگ اس میں سے موتی تلاش کر لیتے ہیں ، کچھ مچھلیاں پکڑ لیتے ہیں اور کچھ کو سمندر سے کھارے پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا ۔
بادل سے برسنے والا پانی ایک جیسا ہی ہوتا ہے ۔
زرحیز زمین اسی پانی سے سبزہ اگا لیتی ہے ،
صحرا کی ریت اس پانی سے اپنی پیاس بجھاتی ہے اور وہی پانی چکنے پتھروں کو محض چھو کر گزر جاتا ہے ۔

اللہ کی رحمت ہر دل کے لیے ایک جیسی ہے
اب یہ ھم پر ہے کہ ہم پر اسکا کتنا رنگ چڑھتا ہے۔
" اور اللہ کا رنگ سب رنگوں سے بہتر ہے 
  • Movie